دراز ہو اس کا حتمی خاتمہ بھی ہے، ہر نفس کو موت سے دوچار ہونا ہے، وہی موت جسے اللہ نے اپنی مخلوق پر مقدر کر رکھا ہے، اور اپنے بندوں پر اسے لکھ دیا ہے، اور خود بقاء ودوام(ہمیشگی) کی صفت سے یگانہ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ﴾ (آل عمران: ۱۸۵)
’’ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ () حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴾ (التکاثر: ۱، ۲)
’’زیادتی کی حرص نے تمہیں غافل کردیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔‘‘
دونوں آیتوں کے صرف پانچ کلموں کے ذریعے سے قرآن دنیا اور اس کے مابعد کی حالت کی عکاسی کر رہا ہے کہ یہ ایک غفلت کی زندگی ہے، پھر زیارت ہے، کونسی زیارت؟ لامحالہ اختتام کو پہنچی ہوئی زیارت، پھر ا س کے بعد دارالحساب کو منتقلی، لیکن وہ زیارت یعنی قبر میں بقاء کی مدت جس کی طولانی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کے باوجود بھی ہم اپنے دین کی روشنی میں بخوبی جانتے ہیں یہ زیارت یعنی قبر میں بقاء کی مدت جس کی درازی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس کے باوجود ہم اپنے دین کی روشنی میں جانتے ہیں کہ(قبر کا) وہ تنگ گڈھا اپنے قبر والے کے حق میں دو میں سے ایک صورت اختیار کر جائے گا، یا تو وہ جنت کی کیاری میں سے ایک کیاری ہوگا، یا جہنم کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا، جیسا کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث اور دیگر احادیث میں وارد ہوا ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اسلاف امت اور ائمہ سلف کا مذہب ہے کہ مرنے والا جب مرجاتا ہے تو یا تو نعمت میں ہوتا ہے یا عذاب میں، اس کی روح اور اس کے بدن دونوں کو یہ چیز حاصل ہوتی ہے، روح بدن سے جداہونے کے بعد یا تو نعمت میں ہوتی ہے یا
|