چند بنیادی قواعد
بلاشبہ خود کفیل ہونا ہی امر مطلوب اور ایسا نیک مقصد ہے جسے پا لینے کے لیے اسلامی تربیت مختلف علوم وفنون میں پروجانے کی ترغیب دیتی ہے۔ لیکن منفعت، افضلیت اور حاجت کے اعتبار سے علوم کے درمیان موازنہ اور صحیح زاویۂ نگاہ قائم کرنے کے لیے کچھ آگاہیوں کی ضرورت ہے، چنانچہ اس کے کچھ بنیادی قواعد ہیں جنہیں علم کی آزادی کی بحث کرتے وقت ایک مسلمان شخص کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ نفع ونقصان کے لحاظ سے علم کی اقسام:
علوم اپنے فائدے کے لحاظ سے نافع اور ضار کے درمیان منقسم ہیں، اور ایک سے زیادہ سے زیادہ علم نافع حاصل کرنا امر مطلوم ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ (طہ: ۱۱۴)
’’ اے نبی! آپ دعا کیجیے کہ پروردگار میرا علم بڑھا دے۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مفید علم سے پناہ بھی طلب کی ہے، صحیح مسلم میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے:
((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یُنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَ شْبَعُ، وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَا یُسْتَجَابُ لَہَا۔))[1]
’’اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے دل سے جو نہ ڈرے اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔‘‘
بطور مثال چند علوم نافعہ و مفیدہ یہ ہیں : علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم تجارت، علم
|