Maktaba Wahhabi

102 - 255
ہے، اور اس امانت کی ادائیگی میں اللہ کو حاضر و ناظر جانتا ہے اور عملی طور پر اس آیت کریمہ کو مدنظر رکھتا ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ﴾ (التحریم: ۶) ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں۔‘‘ دوم:.... جزا وبدلہ: دنیاوی زندگی کے بعد عالم برزخ کا فاصلہ آتا ہے، اور یہ ایسا فاصلہ ہے جسے انسان اپنی زندگی کے بعد قبر میں قیامت سے پہلے گزارتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾(آل عمران: ۱۸۵) ’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور قیات کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے۔‘‘ نیز ارشاد ہے: ﴿ أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ﴾(النساء: ۷۸) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آپکڑے گی گو کہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ ایک مسلمان اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہے کہ موت ایک دروازہ ہے جس میں تمام لوگوں کو داخل ہونا ہے، اور برزخ تمام لوگوں کا گھر ہے اور سبھی کو اس کی زیارت کرنی ہے، سب لوگ اس میں کچھ مدت گزاریں گے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، پھر اعمال کے بارے میں پوچھ گوچھ اور بندوں کے درمیان فیصلہ کے لیے محشر قائم ہوگی۔ برزخی زندگی کی کیفیت اللہ کے سوا کسی کو نہیں معلوم۔ نہ باپ، نہ ماں، نہ احباب، نہ پیروکار اور نہ خدمتگار اور
Flag Counter