نہ نوکر چاکر۔ وہاں بھی پوچھ گوچھ ہوگی اور حساب لیا جائے گا۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ﴾ (ابراہیم: ۲۷)
’’ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ہاں نا انصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے۔‘‘
ابو جعفر النحاس اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں لکھتے ہیں :
’’سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ ایسا قبر میں سوال و جواب کے وقت ہوگا۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کرلیتے تو قبر پر کچھ دیر ٹھہرتے اور کہتے:
’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو، اور اللہ تعالیٰ سے اس کی ثابت قدمی کا سوال کرو، کیونکہ اس سے پوچھ گوچھ ہونے والی ہے۔‘‘[2]
سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْمُسْلِمُ اِذَا سُئِلَ فِی الْقَبْرِ یَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ فَذٰلِکَ قَوْلُہُ:
﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾[3]
’’ایک مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوتا ہے اور وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِکی گواہی دے دیتا ہے تو یہی مطلب ہے
|