﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا﴾والی آیت کا، یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پختہ بات کے ذریعے سے ثابت قدم رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔‘‘
جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِہِ وَتَوَلَّی عَنْہُ أَصْحَابُہُ وَإِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ أَتَاہُ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِہِ فَیَقُولَانِ مَا کُنْتَ تَقُولُ فِی ہَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَقُولُ أَشْہَدُ أَنَّہُ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ فَیُقَالُ لَہُ انْظُرْ إِلَی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّۃِ فَیَرَاہُمَا جَمِیعًا قَالَ قَتَادَۃُ وَذُکِرَ لَنَا أَنَّہُ یُفْسَحُ لَہُ فِی قَبْرِہِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی حَدِیثِ أَنَسٍ قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَیُقَالُ لَہُ مَا کُنْتَ تَقُولُ فِی ہَذَا الرَّجُلِ فَیَقُولُ لَا أَدْرِی کُنْتُ أَقُولُ مَا یَقُولُ النَّاسُ فَیُقَالُ لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ وَیُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِیدٍ ضَرْبَۃً فَیَصِیحُ صَیْحَۃً یَسْمَعُہَا مَنْ یَلِیہِ غَیْرَ الثَّقَلَیْنِ۔)) [1]
’’بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ موڑ کر چل دیتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، اس وقت اس کے پاس دوفرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں، اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ وہ کہتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
تب اس شخص سے کہا جاتا ہے کہ دوزخ میں جو تمہاری جگہ تھی اسے دیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے تمہیں جنت میں ٹھکانہ دیا ہے، وہ شخص اپنے دونوں ٹھکانے دیکھنے لگتا ہے۔
|