ہدایت کے بارے میں اور پختہ و مضبوط کردیتا ہے جسے اللہ نے اس کو عطا کیا ہے اور لوگوں کی ایک بھیڑ میں اسے اس کے گلے لگانے کے لیے چن رکھا ہے، فطرت کی وہ آواز جو ہر انسان کو ودیعت کی گئی ہے اسے بلا مشقت و مصیبت نہایت سہولت سے اس منہج حقہ پر یقین کی طرف کھینچ لاتی ہے۔ بلکہ وہ اس راہ میں ایسی تمام مشکلات و تکالیف اور عوائق کو برداشت کرلیتا ہے جسے ظالم و سرکش لوگ اسے فطر کے ہمراہ چلنے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے مانع ہوتے ہیں۔ اس کا منفی سبب یہ ہے کہ اسے اپنے وجود میں پیوست کردہ فطرت سے جو اس کے پہلو میں نفس کا جزء لایتجزأ بن چکی کنارہ کشی نا ممکن نہیں ہے۔
حریت عقیدہ کے تطبیق کی حقیقی مثالیں :
ذیل میں ہم خیرالقرون کے افراد کی زندگی میں حریت عقیدہ کی چند حقیقی مثالیں اور اس کے نمونے پیش کرتے ہیں :
۱۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے، اور اپنے اسلام کا اعلان کردیا اور قریش کے لوگوں کو اس کا پتہ چلا توان پر ٹوٹ پڑے اور دن چڑھے تک یا دوپہر تک دونوں فریق لڑتے جھگڑتے رہے، جب آپ رضی اللہ عنہ یکہ و تنہا اس ہجوم لڑتے لڑتے تھک گئے تو بیٹھ گئے اور کہہ دیا: تمہیں میرے ساتھ جو کرنا ہے کرلو، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کاش! ہم لوگ تین سو نفر ہوتے، پہلے تو ہم نے انہیں تمہارے لیے چھوڑ دیا تھا یا تم نے انہیں ہمارے لیے چھوڑ دیا تھا، ابھی یہی تکرار چل رہی تھی کہ عاص بن وائل سہمی آگئے اور بولے! ارے یہ کیا معاملہ ہے؟ لوگ کہنے لگے! عمر بے دین ہوگیا ہے، عاص نے کہا، تو پھر؟ ارے ایک آدمی نے اپنے لیے ایک دین پسند کرلیا ہے تو پھر تم چاہتے کیا ہو؟ تمہارا کیا خیال ہے کہ قبیلۂ بنی عدی اپنے آدمی کو تمہارے حوالے کردے گا؟ چھوڑو اسے جانے دو، تب ہجوم ہٹا۔[1]
۲۔ جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو ان کے چچا حکم بن ابی العاص بن امیہ
|