ہے اس کے لیے میدان بہت وسیع ہے، کیونکہ نفس کی کمی و کوتاہی کا شکوہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا، خواہ وہ کتنی بھی عمر پائے، البتہ جو اپنے نفس سے راضی و مطمئن ہوگیا وہ مغرور اور فریب خوردہ شخص ہے۔‘‘[1]
جمعہ وجماعت کی ادائیگی اور مسلم اخوان کے اجتماعات میں حاضری سے خالق کی عبودیت متحقق ہوتی ہے، نفس انسانی فطری طور سے کبھی ضعیف اور کبھی کمزور اور سست ہوتا رہتا ہے، لیکن اپنے ہم مثل لوگوں کی ملاقات پر جو اسی طریقے سے زندگی گزارتے ہیں دل کو تقویت اور ثبات و سکون ملتا ہے۔
(د)....حالات وواقعات اوردشمن کے مکروفریب کی واقفیت:
موجودہ دور کا مسلمان ایسے حالات وظروف میں زندگی گزار رہا ہے جو ان مسلمانوں کی زندگی سے مختلف ہے جو زمانہ ماضی میں تھے، آج باطل کا دور دورہ اور رعب و دبدبہ ہے اور عصری جاہلیت بڑی تیز رفتاری اور نت نئے وسائل کے ساتھ قدم بڑھا رہی ہے تا کہ اسلامی تربیت کا رخ وقت کے دھارے کی طرف موڑ دے اور رب العباد کی بندگی سے بندوں کی بندگی کی طرف لگا دے، موجودہ دور میں جب یہ جاہلیت اپنی پوری پوری کوشش اور وسائل اس امر کے لیے استعمال کر رہی ہے کہ بندے کی شہوات اور طواغیت کی عبادت میں لگ جائیں، یہ جاہلیت بہت حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہے۔
آج اسلام کے ستون مسجد کے گوشوں میں کسی شیخ کی دعا، اور واقعیت سے دور کسی خطیب کے کھوکھلے گرجدار خطبے سے قائم نہیں رہ سکتے، اسی طرح وہ مشکوک قسم کے بعض جرائد و مجلات میں کچھ بیانات کے نشر کردینے سے بھی قائم نہیں رہ سکتے، بلکہ اس کے قیام کے لیے جہاد ضروری ہے، نفس کے ساتھ جہاد، دشمن کے خلاف جہاداور شہوات وشبہات سے جہاد۔
دشمن کے خلاف جہاد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ:
﴿ وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ ﴾ (الانعام: ۵۵)
|