اپنے سامنے رکھے جن کے سامنے کسی تربیتی یا تعلیمی ادارہ یا مسجد یا جامعہ وغیرہ میں زانوئے تلمذتہ کیا ہے، تو وہ ضرور اپنی مراد پالے گا، نیز ممکن ہے کہ وہ سماج کے ان مشہور وممتاز علماء عاملین میں سے ہو جو ہزاروں میل دور تو ہے لیکن اس سے اتصال اور اس کے علم وکوشش اور تربوی تجربات کے شفاف چشمے سے استفادہ کرنا آسان ہے۔ شاید ایک انسان کی نظر میں ان جیسے رہنماؤں کا وجود اسے دینی تعلیم اور اس بنیادی امور کو مزید مضبوطی سے پکڑنے کا اور اس کے لیے مزید کوشش کرنے کا باعث ہوگا، کیونکہ وہ حقیقت میں ان تعلیمات کی تطبیق کے امکانات کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اور جس شخص کے احساس وشعور میں یہ واضح ہو اور صاف ہوگیا کہ زندگی کے تمام مشکلات کا سب سے افضل اور کامیاب حل کتاب وسنت ہی ہے تو وہ ایک لحظہ کے لیے بھی ان نابغۂ روز گار ہستیوں کی نصیحتوں اور ان کے آراء ومشوروں سے رہنمائی حاصل کرنے میں تردد نہیں کرے گا، بلکہ وہ اپنی ذات کے لیے افضل اور اصلح کی تلاش میں زیادہ وقت اور محنت صرف کرتا رہے گا۔ چوتھا درجہ: ایک معاشرہ میں رہنے والے تمام افراد بحیثیت دوست اور مصاحب اس مستوری میں شریک ہیں، کیونکہ انسان طبعی طور پر دوسروں سے انسیت حاصل کرتا ہے اور دوست واحباب یا جمعیت وجماعت سے لگا ہوتا ہے اور ان کے رنج وغم اور خوشی ومسرت میں شامل ہوتا ہے اور اس کے زیر سایہ ان افراد یا جماعت کی خاص اور ممتاز خوبیوں سے اثر پذیر یا اثر اندازی کی صورت میں متصف ہو کر زندگی گزارتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ مستوی بھی قیادت کاایک اہم میدان ہے، کیونکہ فرد شخصیت پر اس مصاحب کی ایجابی یا سلبی اثر ضرور پڑتا ہے۔ قرآن وسنت کے بہت سے نصوص اس قد وہ کے اہتمام پر دلالت کرتے ہیں، اور اچھے مصاحب کے انتخاب کے لیے ابھارتے ہیں۔ اس بنیاد پر جب کوئی شخص اپنی تربیت کرنا چاہے تو ایسے ساتھی کا انتخاب کرے جو اسے بھولنے پر اللہ کی یاد دلائے، اور غافل ہوجانے پر ہدایت کی جانب رہنمائی کرے، اور جب اطاعت کا کوئی کام کرے تو اس کی مدد کرے یا اس |