’’اس قاعدہ کی صحت کے لیے تمہیں صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ کوئی بھی اپنے زمانے کا مشہور عالم ایسا نہیں ہے جس نے اپنے کسی ہم عصر کو اپنا نمونہ اور آئیڈیل نہ بنایا ہو، اور ایسا بہت ہی کم نظر آئے گا کہ کوئی گمراہ یا فرقہ یا کوئی شریعت کا مخالف شخص بھی اس صفت سے عاری ہو۔ ابن حزم ظاہری پر اسی وجہ سے طعن وتشنیع کی جاتی ہے کہ انہوں نے اساتذہ وشیوخ کو نہیں اپنایا اور نہ ان کے آداب سے مزین ہوئے، اس کے برعکس علماء راسخین ائمہ اربعہ وغیرہ ہیں۔(جنہوں نے اپنا کوئی پیشوا اور نمونہ بنایا ہے)‘‘
استاد کی صحبت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اتنا جان لینا کافی ہے کہ علمائے کرام نے استاد کی صحبت کو حصول علم اور علمی تربیت کے شرائط میں شمار کیا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أخی لن تنال العم الا بستۃ
سأنبیک عن تفصیلھا ببیان
ذکاء وحرص واجتھاد وبلغۃ
صحبۃ أستاذ وطول زمان
’’میرے بھائی بلا چھ چیزوں کو اپنائے تم علم حاصل نہیں کرپاؤ گے، ان چھ چیزوں کو غور سے سن لو:
۱۔ دانشمندی ۲۔شوق
۳۔ محنت وکوشش ۴۔ گزارے کا سامان
۵۔ استاد کی صحبت ومعیت ۶۔ وقت اور طویل مدت‘‘
ایک طالب علم خیر یہ سوال کرسکتا ہے کہ اس نوع کے پیشوا آج کہاں سے پاسکتے ہیں ؟ تو ہم اس سے کہیں گے کہ تمہارا کہنا بالکل صحیح ہے کہ اس آخری زمانہ میں ایسی کامل شخصیت کا وجود بہت مشکل ہے، لیکن جب کوئی اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائے اور اپنے ان اساتذہ کو
|