Maktaba Wahhabi

210 - 255
اس مستوی میں پیشوا کا انتخاب کرتے وقت مندرجہ ذیل قانون کی اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے، یعنی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جس کا دل اللہ تعالی سے لگا ہوا ہو، اس سے غافل نہ ہو، اور علم وعمل میں مخلص ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا ﴾ (الکہف: ۲۸) ’’اور تو اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے۔‘‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جب کوئی شخص کسی کی اقتدا کا ارادہ کرے تو وہ یہ دیکھ لے کہ جس کی اقتدا کرنا چاہتا ہے وہ اللہ کا ذکر کرنے والا ہے یا غافلین میں سے ہے؟ اس پر حکمرانی خواہشات کی ہے یا شریعت وپیغام الٰہی کی، اگر اس پر خواہشات کی حکمرانی ہے اور وہ غافلین میں سے ہے اوراس کا کام حد کو پار کرگیا ہے، تو اس کی اقتدا اور اتباع نہ کرے کیونکہ وہ اسے ہلاکت و بربادی کی طرف دھکیل دے گا، لیکن اگر دیکھے کہ اس پر اللہ کے ذکر اور سنت کی اتباع کا غلبہ ہے اور اس امر حد سے پار نہیں ہوا بلکہ وہ اپنے امر میں مستقل مزاج اور پختہ ارادہ والا ہے تو اسے مضبوطی سے پکڑ لے۔‘‘[1] اس نوع کے قد وہ کی اہمیت کے پیش نظر قدیم علماء کرام اپنی ذاتی تربیت کے لیے اس کے اپنانے کے حریص تھے، اس کی وجہ سے وہ مشائخ کی خدمت میں ہمیشہ رہتے اور صبر واطاعت کے ساتھ ان کی تابعداری کرتے تھے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ اس امر کو ایک قاعدہ اور ایک اصول قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
Flag Counter