نے انہیں پکڑ کر جکڑ دیا اور کہا: کیا تو اپنے باپ دادا کے دین سے پھر کر ایک نئے دین میں داخل ہوجائے گا؟ خدا کی قسم! میں تمہیں نہیں کھولوں گا جب تک تو وہ دین نہیں چھوڑے گا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، اللہ کی قسم! میں نہ اسے چھوڑ سکتا ہوں اور نہ اس سے الگ ہوسکتا ہوں، جب چچا حکم نے دین میں اس کی استقامت کا مظاہر دیکھا تو انہیں اس کے حال پر چھوڑ دیا۔[1]
۳۔ یہ بلال، خباب اور آل یاسر وغیرہ رضی اللہ عنہم ہیں جنہیں اللہ کے بارے میں سزائیں دی جاتیں تا کہ وہ اپنے آزادیٔ عقیدہ سے تنازل اختیار کرلیں، اس کے باوجود انہوں نے صبر کا مظاہرہ کیا، اذیتیں برداشت کیں حتیٰ کہ اس حالت میں کچھ کو جان گنوانا پڑی، اور کچھ زندہ سلامت رہے جو اپنی دردناک داستانیں لوگوں کو سنایا کرتے تھے، اور یہ سب کے سب اللہ کی رضا و خوشنودی کے ساتھ اللہ سے جاملے۔
۲۔ عبادت کی آزادی:
عبادت کی حریت و آزادی عقیدہ کی حریت و آزادی کی شاخ ہے، اور چونکہ عبادت نام ہے اوامر کے بجا لانے اورمنہیات سے باز رہنے کا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قاعدہ وضع کرتے ہوئے کہا ہے:
((مَا نَہَیْتُکُمْ عَنْہٗ فَاجْتَنِبُوہٗ وَمَا اَمَرْتُکُمْ بِہٖ فَافْعَلُوا مِنْہٗ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔))[2]
’’میں تمہیں جن چیزوں سے روک رہا ہوں ان سے پرہیز کرو، اور جن باتوں کا حکم کر رہا ہوں ان میں سے جو ہوسکے انہیں بجا لاؤ۔‘‘
اس حدیث کے بارے میں جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح مسلم میں رقمطراز ہیں :
’’اسلام کے اہم ترین قواعد میں سے ایک ہے، اور یہ ان جامع کلمات میں شامل
|