ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئے ہیں، اس حدیث کے تحت لاتعداد احکام داخل ہوتے ہیں۔‘‘[1]
اس حدیث کے بعض احکام و دلائل یہ ہیں :
’’ہر مسلمان کو اپنے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام و فرامین کی جستجو کا اہتمام کرنا چاہیے، پھر انہیں سمجھنے اور ان کے معنیٰ و مفہوم پر واقف ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، پھر اگر وہ احکام علم سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کی تصدیق میں مشغول رہنا چاہیے، اور اگر علم سے متعلق ہوں تو حتی الوسیع مامورات پر عمل آوری اور منہیات سے اجتناب کی کرشش کرنی چاہیے تا کہ اس کے ارادے انہی کی طرف متوجہ رہیں، نہ کہ کسی غیر کی طرف، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے سلیقہ مند تابعین کتاب و سنت کے نفع بخش علوم میں منہمک رہا کرتے تھے۔‘‘[2]
۱۔ یہ کہ دانشمند صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں سے منع کیا فرد مسلم ان سے بالکلیہ احتراز کرے۔
۲۔ یہ کہ جملہ اوامر کی بجا آوری کی کوشش کرے۔
۳۔ یہ کہ حتی الوسع و حتی المقدور اوامر کو بجا لائے۔
گویا ہر مکلف شخص پر واجب ہے کہ منہیات و محرمات اور مکر وہات سے پرہیز کرے، اور اپنے نامۂ اعمال کو نیکیوں سے پر کرنے کے لیے طاعت کے کام کرنے، بھلائیوں کی طرف سبقت کرنے اور انواع و اقسام کے تقریب حاصل کرنے کے کام انجام دینے میں
|