اندر کتاب و سنت کی شکل میں اس قانون کی تنفیذ کی ذمہ داری لی ہے جو اس کے مختلف پہلوؤں میں ابھر کر سامنے آتا ہے:
۱۔ عقیدہ وعبادت کی آزادی
۲۔ فکری آزادی
۳۔ ملکیت کی آزادی
۴۔ علمی آزادی
۱:....عقیدہ و عبادت کی آزادی
یہاں آزادی دو عناصر میں تقسیم ہو رہی ہے:
۱۔ عقیدہ کی آزادی
۲۔ عبادت کی آزادی
۱۔ عقیدہ کی آزادی:
پہلے پہل اسلام قبول اسلام کی آزادی کا اقرار کرتا ہے، وہ کسی کو اپنا عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرتا، اگرچہ وہ اس کی دعوت ضرور دیتا ہے، اور اسلام پر مجبور کرنے اور اسلام کی دعوت دینے میں نمایاں فرق ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ﴾ (البقرہ: ۲۵۶)
’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے واضح ہوچکی ہے۔‘‘
نیز ارشاد ہے:
﴿ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ﴾ (الکہف: ۲۹)
’’پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔‘‘
لہٰذا ہدایت وضلالت اور ایمان و کفر کا معاملہ ہر انسان کے ہاتھ میں ہے، کوئی کیسا بھی
|