ہم اسے صرف صحابہ کرام تک محدود بھی نہیں کرسکتے بلکہ اس کا سلسلہ ان کے بعد بھی موجود ہے۔ اقتدا کی یہ نوعیت اس فطری شوق ورغبت پر لبیک کہتا ہے جو ایک انسان میں موجود ہے جسے اپنا کروہ ان نابغہ ٔ روزگار ہستیوں کے مقام تک یا اس سے آگے تک پہنچنا چاہتا ہے۔
تیسرا درجہ:
انسان کا اپنے معاشرے اور سوسائٹی میں ایسے باحیات صاحب خیر وصلاح شخصی کی اقتدا کرنا جو لائق اقتدا ہو، ایک انسان کو چاہیے کہ ایسے شخص کا انتخاب کرے جو فضل وتقویٰ کا جامع ہو۔ اس لیے نمونہ بن سکے تا کہ خیروہدایت کے امور میں ان کی نقالی کرسکے، اور اپنے ہررنج وغم اور خوشی ومسرت میں اس سے مراجعہ کرسکے اور اپنے تمام احداث اور تغیرات اور معاملات میں اس کی عقل، رائے اور مشورہ سے استفادہ کرسکے، اسی طرح خواہش کر ے کہ اس کے ساتھ رہ کر اس شخص کے تجربات ومہارت کو سیکھے اور اپنی ذات کی تربیت میں اس سے استفادہ کرے۔ یہ وہ اسوہ ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خیر کی کنجی اور شر کا تالا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:
((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم إِنَّ مِنْ النَّاسِ مَفَاتِیحَ لِلْخَیْرِ، مَغَالِیقَ لِلشَّرِّ۔ وَإِنَّ مِنْ النَّاسِ مَفَاتِیحَ لِلشَّرِّ، مَغَالِیقَ لِلْخَیْرِ۔ فَطُوبَی لِمَنْ جَعَلَ اللّٰہُ مَفَاتِیحَ الْخَیْرِ عَلَی یَدَیْہِ۔ وَوَیْلٌ لِمَنْ جَعَلَ اللّٰہُ مَفَاتِیحَ الشَّرِّ عَلَی یَدَیْہِ۔))[1]
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ لوگ خیر کی کنجی اور شر کے تالے ہیں اور(اس کے برعکس) کچھ لوگ شر کی کنجی اور خیر کے تالے ہیں، خیر وخوبی اور سعادت و نیک بختی ہے اس شخص کے لیے جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ نے خیر کی کنجی رکھ دی ہے، اور ہلاکت وبربادی ہے اس شخص کے لیے جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے شر کی کنجی دے دی ہے۔‘‘
|