ذیل میں ہم اسلوب محاسبہ کے تربوی آثار کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں :
۱۔ یہ کہ اللہ عزوجل کے لیے کامل عبودیت متحقق ہو۔
۲۔ یہ کہ سلوک ومعاملات میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو۔
۳۔ یہ کہ بلا کسی نقص اور کمی کے لوگوں کے حقوق کی ادائیگی ہو۔
۴۔ یہ کہ زندگی کے ہر میدان میں ٹھوس عملی اقدام ہو۔
۳۔ اللہ کا تقویٰ یا خوف الٰہی:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا () يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴾(الاحزاب: ۷۰، ۷۱)
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی(سچی) باتیں کیا کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے گا، اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔‘‘
شخصی تربیت اور اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے مابین ٹھوس اور قوی تعلق پایا جاتا ہے اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حسنات کو قبول کرتا ہے اور اعمال کو پاک وصاف کردیتا ہے۔[1]
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے بندوں سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ جب(مندرجہ بالا آیات قرآنی میں ) مذکرہ امور کو بجا لائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اس کا ثواب دے گا، ان کے اعمال کی اصلاح فرمادے گا، یعنی انہیں صالح اعمال کی توفیق بخشے گا ان کے گزشتہ گناہوں کو معاف کردے گا، اورمستقبل میں ہونے والے گناہ سے توبہ کا الہام کرے گا۔‘‘[2]
|