کامل اور تام ہوگا۔
۲:.... نفس سے سوئے ظن کا مطلب یہ ہے کہ نفس اس کو اپنے عیوب ونقائص کی کامل چھان بین مکمل تفتیش سے نہ روکے۔
۳:.... نعمت اور نقمت کے مابین تمیز کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے نعمتوں کے پروردہ نعمتوں کا شعور نہیں رکھتے، وہ جاہلوں سے اپنی تعریف سن کر مخبوط الحواس ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تمام ضروریات کو پوری کردینے اور ان کے گناہوں پر پردہ ڈال دینے کی وجہ سے مغرور رہتے ہیں۔‘‘[1]
انسان کے اس کے نفس کے عیوب کی معرفت اور نعمت و نقمت یافتنہ کی تمیز کرنے میں یہ بات بھی معاون ہے جسے امام غزالی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے:
’’آپ نے نفس کے عیوب کی معرفت کے چار طریقے بیان کیے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :
۱:.... انسان عیوب نفس کے ماہر شیخ کے سامنے بیٹھے، ان کی باتوں کو اپنے دل میں جاگزیں کرے اور مجاہدۂ نفس کے لیے ان کے اشارہ کو اپنائے۔
۲:.... ایسے بابصیرت، صادق ومخلص اور دیندار دوست کو تلاش کرے اور اسے اپنا نگراں ورقیب بنائے جو اس کے احوال وافعال پر کڑی نظر رکھے۔
۳:.... اپنے اعداء ومخالفین سے اپنے نفس کے عیوب کی معرفت حاصل کرے، کیونکہ دشمن کی آنکھ تمہارے عیوب کو ظاہر کردیتی ہے۔
۴:.... عام لوگوں کی مصاحبت کے ساتھ بالخصوص مصلح اور صالح لوگوں کی صحبت اختیار کرے اور یہ دیکھتا رہے کہ وہ امور جو لوگوں میں مذموم ہیں، ان میں اس کے نفس کا کتناحق و حصہ ہے، انہیں اپنی طرف منسوب کرے اور اپنے نفس کو ٹٹولے اور پھر ان مذموم امور اسے اپنے آپ کو پاک وصاف کرے۔‘‘[2]
|