دُوْنَ حَاجَتِہِمْ وَخَلَّتِہِمْ وَفَقْرِہِمْ احْتَجَبَ اللّٰہُ عَنْہُ دُو ْنَ حَاجَتِہِ وَخَلَّتِہِ وَفَقَرِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔))[1]
’’جس کو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے کچھ امور کا والی بنائے اور وہ ان کی ضرورتوں حاجتوں اور فقر کے درمیان آڑے آجائے(یعنی انہیں پورا نہ کرے) تو اللہ تعالیٰ بھی روز قیامت اس کی حاجت و ضرورت اور فقر کے درمیان آڑے آجائے گا۔‘‘
تمام اہل رعیت اور علماء و حکام اور مربیان وغیرہ کو ان آیات واحادیث میں غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ ذمہ داری بہت بڑی ہے اور حساب بڑا مشکل ہے، صحیح بات یہ ہے کہ جزا قیامت کے روز ملے گی لیکن یہ بھی ذہن نشیں رہنا چاہیے کہ ذمہ دا ری اسی دنیاوی زندگی سے شروع ہوتی ہے جو عمل اور کرتوت کا مقام ہے۔ تو کیا ہر شخص نے امانت کے تعلق سے جس کا اسے مکلف کیا گیا ہے اپنے اوپر عائد شدہ فریضہ کو ادا کردیا ہے؟ اپنے نفس کو اس سوال کا جواب دینا ہر فرد سے آزادی وپاکیزگی اور پرخلوص چاہتا ہے، لہٰذا عذر پیش کرنے، خطاؤں کو درست ثابت کر کے انہیں جائز قرار دینے، نفساتی مغالطے پیش کرنے، اور لاشعوری حیلے گڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ آج تو دارالعمل ہے حساب نہیں ہے، اور کل کو دارالحساب ہوگا عمل نہ ہوگا۔
آدمی کا اس ذمہ داری کا احساس اسے سستی و کاہلی اور مایوسی کے بغیرعمل کے لیے آگے بڑھاتا ہے، وہ اس ذمہ داری کے اندر دیکھتا ہے کہ اس نے امانت کو کما حقہ ادا کیا ہے یا اسے ضائع کیاہے اور کوتاہی کی ہے۔ آدمی کا سب سے اہم نگراں و محاسب اس کا نفس ہے جواس کے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے، گاہے بگاہے اس سے رجوع کرتا ہے اور اس سے سوال ہونے سے پہلے خود اس سے سوال کرتا ہے۔ جس طرح ایک شخص کی اپنے عیال کے تعلق سے ذمہ داری اسے مشقت کے کام کا احساس دلاتی ہے تو وہ اس کی نگرانی و حفاظت کا خیال رکھتا
|