دخل موجود ہے۔‘‘[1]
اس ذمہ دای کی عظمت و اہمیت اس حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب اور بڑھ جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرعِیْہِ اللّٰہُ رَعِیَّۃً یَمُوْتُ یَوْمَ یَمُوْتُ وَہُوَ غَاشٍ لِرَعِیَّتِہِ اِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ۔))[2]
وفی روایۃ: ((مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاہُ اللّٰہُ رَعِیَّۃٌ فَلَمْ یَحُطْہَا بِنَصِیْحَۃٍ لَمْ یَجِدْ رَائِحَۃً الْجَنَّۃَ۔))[3]
وفی روایۃ لمسلم: ((مَا مِنْ أَمِیْرِ یَلِیْ اَمَرَ الْمُسْلِمِیْنَ ثُمَّ لَا یَجْہَدُ لَہُمْ وَیَنْصَحُ لَہُمْ اِلَّا لَمْ یَدْخُلُ مَعَہُمُ الْجَنَّۃَ۔))[4]
’’اللہ کسی رعیت کی رکھوالی جس آدمی کے سپرد کردے اور وہ انہیں دھوکہ دیتے ہوئے مرجائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے‘‘ ایک اور روایت میں ہے کہ’’جس کسی بندے کو اللہ نے کسی رعیت کی رکھوالی عطا کی اور اس نے خیر خواہی کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت نہیں کی، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘ مسلم کی ایک اور روایت میں ہے’’جو حاکم بھی مسلمانوں کے معاملات کا ذمہ دار بنے گا پھر وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور کوشش اور ان کی خیر خواہی نہ کرے ان کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ وَلَاہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَاحْتَجَبَ
|