Maktaba Wahhabi

82 - 255
’’مشرکین کی ہجو کرو، جبریل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘[1] سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد ابو بکر عمرو رضی اللہ عنہما کی اقتدا کرو، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا طریقۂ عمل اپناؤ، اور عبداللہ بن مسعود جو تم سے بیان کریں اسے قبول کرو۔‘‘[2] حوصلہ افزائی کے ایسے آثار و مرویات بہت ہیں۔ اسلامی تربیت میں علمی آزادی دروازے کے دونوں پاٹ کو کھول دیتی ہے تا کہ نوع بہ نوع کے تجربات و تخصصات حاصل ہوسکیں۔ لیکن وہ سب اپنی کثرت اور تنوع کے باوجود ایک ہی چشمہ میں بہ پڑتے ہیں اور وہ سماج کا خود کفیل ہونے کی توقعات کا پورا ہونا، اور ایسا اس معاشرے کے افراد کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہوگا۔ اسلامی تربیت اسی نشانہ یا منشا کو پورا کرنے کے لیے صلاحیتوں کو کا م میں لگاتی ہے جسے سب کے سب مل جل کر کرتے اور تیار کرتے ہیں، اور سب کے سب اپنی اپنی جگہ اپنی طاقت، اپنے عملی رحجان اور فکری تمنا، اور پریکٹیکل صلاحیت کے مطابق کام کرتے ہیں، اور یہ ایک مفروضہ ہی ہوگا کہ مسلمانوں میں ایسے اشخاص نہ پائے جائیں جو کسی کام کے نہ ہوں۔ ایک مسلمان شخص جب بھی کوئی کام کرتا ہے تو وہ ایک تعمیری اینٹ رکھتا ہے اور اس کی اس محنت وحصہ داری سے بے نیازی نہیں کہی جاسکتی۔ ایک آدمی کا علمی آزادی کا احساس اسے اپنی پیش کردہ معمولی محنت کو بھی کم تر نہیں سمجھنے دیتا، بلکہ اس کے برعکس اسے اس بات کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ اپنے میدان میں مزید نیا کام کرے اور اپنے آس پاس موجود شگاف کو بند کردے تا کہ مسلم سماج اس طرف سے ڈنسا نہ جا سکے، اور تا کہ وہ خود دوسروں کا دست نگر نہ بن جائے۔
Flag Counter