عذاب میں، کبھی کبھی بدن سے اس کا اتصال ہوا کرتا ہے جس کے سبب سے روح کے ساتھ بدن کو بھی وہ نعمت یا عذاب حاصل ہوتا رہتا ہے، اور پھر جب قیامت کبریٰ کا دن آجائے گا تو روحیں بدن کو لوٹا دی جائیں گی، اور لوگ رب العباد کے حضور حاضری کے لیے اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے، بدن کی واپسی پر مسلمان اور یہود ونصاریٰ سب کا اتفاق ہے۔‘‘[1]
لہٰذا انسان کو موت اس کی قیامت یعنی قیامت صغری ہے، قیامت کبری تو صور میں پھونکنے کی اجازت اور تمام نوع بشر کے حشر سے قائم ہوگی۔
ارشاد الٰہی ہے:
﴿ فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا () يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ () تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ () قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ () أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ ﴾ (النازعات: ۵، ۹)
’’جس دن کانپنے والی کانپے گی، اس کے بعد ایک پیچھے آنے والی(پیچھے پیچھے) آئے گی، اس وقت دل وجگر تھرا تھرا رہے ہوں گے، عقل وفہم حیران ہوں گے۔‘‘
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ ﴾(الحج: ۲)
’’جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے، اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے۔ حالانکہ در حقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے۔‘‘
اور اس دن کی ہولناکی کا اس آیت میں بھی بیان ہے، فرمایا:
|