Maktaba Wahhabi

65 - 255
یہ ہے ایک آزاد بندہ یا بقول شیخ عبدالمنعم العزی ایسا بے لگام بندہ کہ’’رسم ورواج جس کے مالک نہیں ہوسکتے، پابندیاں اسے مقید نہیں کرسکتیں، اس کے عبادت کا عمل اس کے نفس کی منشا اور پسندیدہ لذت و راحت کے مطابق نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے رب کی منشا کے مطابق ہوتاہے، اگرچہ اس کے نفس کی راحت و لذت کسی اور کام میں ہو، یہی وہ شخص ہے جو واقعی ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾(الفاتحہ: ۴)’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔‘‘کو واقعی پورا کرتا ہے اور اس پر عمل کا مصداق بنتا ہے، اسے جو مل جاتا ہے پہن لیتا ہے، جو مل جاتا ہے کھا لیتا ہے، وہ پابندی وقت کے ساتھ امر الٰہی کی بجا آوری میں مشغول رہتا ہے، مجلس میں جہاں کہیں خالی جگہ پاتا ہے بیٹھ رہتا ہے، کوئی اشارہ اسے مملوک نہیں بنا سکتا، کوئی پابندی اسے غلا م نہیں بنا سکتی اور رسم ورواج اس پر غالب نہیں آسکتے۔ وہ بالکلیہ آزاد ہے، وہ جہاں کہیں بھی چلتا پھرتا ہے احکام و اوامر کے ساتھ چلتا پھرتا ہے۔ حکم دینے والے(اللہ) کا دین لیے ہوئے ہوتا ہے اس کی سواری جدھر بھی جائے، وہ دین کو لیے ہوئے پھرتا ہے اس کا خیمہ جہاں بھی نصب ہوجائے، ہر حق پسند اس سے مانوس ہوتا ہے اور ہر باطل پرست اس سے وحشت کرتا ہے۔ وہ اس بارش کے مانند ہے جسے پت جھڑ نہیں ہوتا، اور وہ سراپ مفید ہے، حتیٰ کہ اس کا کانٹا بھی، وہ امر الٰہی کے مخالفین کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے اور حرمات الٰہیہ کی توہین کی جائے تو وہ اللہ کے لیے اور اللہ کے واسطے اور اللہ کے ساتھ غضبناک ہوجاتا ہے۔‘‘[1] یہ ہیں حریت عبادت کی مثالی صورتیں، یا جیسا کہ اسے ہونا چاہیے، رہی مسلمانوں کی زندگی میں عبادت کے مسئلہ میں شخصی آزادی کی عملی تطبیق تو وہ مندرجہ ذیل کریمہ میں کھل کر واضح ہوجاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ
Flag Counter