Maktaba Wahhabi

66 - 255
مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴾ (الفاطر: ۳۲) ’’پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا، پھر بعض نے تو ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں، اور بعض ان میں متوسط درجے کے ہیں اور بعض ان میں اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کیے چلے جاتے ہیں، یہ بڑا افضل ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ مخلوق عبادت میں تین قسم کی ہے: ظالم، میانہ رواور سبقت کرنے والی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان تینوں اقسام کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ’’ظالم لنفسہ(اپنی جان پر ظلم کرنے والا) وہ شخص ہے جو مامورات کو چھوڑ کر اور منہیات پر عمل کر کے نافرمانی کرتا ہے۔ ’’مقتصد‘‘ (میانہ رو) وہ شخص ہے جو واجبات کو ادا کرتا ہے محرمات سے اجتناب کرتا ہے، اور’’سابق بالخیرات‘‘ (نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والا) وہ شخص ہے جو حتی المقدور واجبات و مستحبات کو ادا کرتا ہے، اور حرام و مکروہ کو چھوڑ دیتا ہے۔‘‘[1] انتہائی بیدار مغزی و حساس فہمی اور انتہائی تیز نگاہی سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کسی شخص کی آزادیٔ عبادت کی حقیقت کوبیان کر رہے ہیں، ان کی رائے یہی ہے بندہ جیسے جیسے اللہ کی محبت میں بڑھتا جائے گا اللہ کے لیے اس کی بندگی اور اس کی آزادی بڑھتی جائے گی، اور دوسرے اعتبار سے جیسے جیسے اللہ کے بندہ کی بندگی بڑھتی جائے گی، اللہ سے اس کی محبت اور ماسوا اس کی آزادی بڑھتی جائے گی۔[2] اسلامی معاشرے میں حریت عبادت کی جو ہر شخص کا ذاتی حق ہے، اس کی عبادت میں انتہائی بلیغ تاثیر ہے جو اس کی شخصیت میں بلا واسطہ اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ایک بندہ
Flag Counter