معنی میں داخل ہے۔‘‘[1]
راقم الحروف علامہ ابن سعدی رحمہ اللہ کی رائے سے بالکلیہ اتفاق کرتا ہے، بلکہ اس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اس آیت کے عموم میں جملہ مادرو پدر، معلمین و مرشدین اور علماء وامراء وغیرہ یعنی سماج کے جملہ افراد اپنے اپنے مقدور کے مطابق شامل ہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس میں امت میں ایک گروہ اس کام کے لیے تیار رہنا چاہیے، اگرچہ یہ کام امت کے تمام افراد پر اس کی طاقت کے مطابق واجب بھی ہے۔‘‘[2]
اور اس کی دلیل ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث بھی ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:
((مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَانُ۔))[3]
’’تم میں سے جو شخص بھی کوئی ناپسندیدہ عمل دیکھے اسے اپنے ہاتھ(کی طاقت) سے بدلے، اگر نہ ہوسکے تو زبان سے(کہہ کر) بدلے، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو(کم از کم) دل سے (اسے برا جانے) جبکہ یہ ایمان کا سب سے کمزور مرتبہ ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ:
((وَلَیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃٌ خَرْدَلٍ۔))[4]
’’اور اس کے مابعد رائی کے ایک دانہ برابر بھی ایمان نہیں ہے۔‘‘
|