تھا: ہم نہیں چاہتے کہ یہ لوگ ہم پر جرأت کریں،لہٰذا آپ انہیں اپنے پا س سے ہٹا دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا کچھ خیال آگیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘[1]
یہ خیر المرسلین ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جنہیں ان کے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ فقیرو ضعیف مسلمانوں کی اس معمولی سی جماعت کے ساتھ اپنے آپ کو مربوط رکھیں، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کام اور ضروریات اور انہیں پیش آمدہ ان دشواریوں اور مشکلوں کا خاص خیال رکھیں۔ ایک بچی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر جدھر چاہتی لے جاتی، سیرت نبوی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں صاف صاف موجود ہے کہ یہ الٰہی حکم صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ پوری امت اس بات کی مکلف ہے کہ اس کی مہم کی تکمیل کے لیے معتدبہ افراد کی تعداد تیار رکھے، اور اس کے ساتھ ساتھ ہر فرد پر بھی واجب ہے کہ اپنی استطاعت وحیثیت کے مطابق اپنی یہ ڈیوٹی انجام دیا کرے۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (آل عمران: ۱۰۴)
’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں۔‘‘
شیخ عبدالرحمن بن سعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’ہر وہ شخص جو عمومی یا خصوصی طور پر لوگوں کی خیر کی طرف دعوت دے، یا عمومی یا خصوصی طور پر لوگوں کے لیے نصیحت کا کام انجام دے وہ اس آیت کریمہ کے
|