وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ (الانعام: ۵۱، ۵۲)
’’اور اس وحی الٰہی سے آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جنہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کیے جائیں گے کہ غیر اللہ میں سے نہ کوئی ان کا مددگار ہوگا اور نہ کوئی سفارشی، امید ہے کہ وہ ڈرجائیں گے، اور آپ ان لوگوں کو بھی اپنے پاس سے نہ ہٹائیں جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اسی رضا مندی کا قصد و ارادہ رکھتے ہیں، ان کی جواب دہی آپ پر نہیں، اور آپ کی جواب دہی ان پر نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں، ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘
مفسر زجاج رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’اگرچہ آپ تمام مخلوق کو ڈرانے والے تھے لیکن قیامت کے روز اٹھائے جانے سے ڈرنے والوں کا نہ کہ دیگر حضرات کا بالخصوص اس واسطے ذکر کیا ہے کہ حشر سے ڈرنے والوں پر دلیل کا قیام چونکہ ان کے معاذ کے اعتراف کی وجہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ دو افراد میں ایک ضرور ہوتا ہے، اول یا تو وہ مسلمان ہوگا اور اس لیے ڈرایا جا رہا ہوگا تا کہ وہ اپنے اسلام کے سلسلے میں اللہ کا حق ادا کردے۔دوم یاوہ کتابی یعنی اہل کتاب کافرد ہوگا تو اہل کتاب کا موت کے بعد اٹھائے جانے پر اتفاق ہے۔‘‘[1]
سورۂ انعام کی اس آیت کے بارے میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
’’یہ آیت چھ افراد کے بارے میں نازل ہوئی، میرے بارے میں اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، صہیب رومی رضی اللہ عنہ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ اور بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے بارے میں قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا
|