صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾ (سبا: ۶)
’’اور جنہیں علم ہے وہ دیکھ لیں گے کہ وہ جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ(سراسر) حق ہے اور اللہ غالب خوبیوں والے کی راہ کی رہبری کرتا ہے۔‘‘
اور ارشادہے:
﴿ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ﴾ (فاطر: ۲۸)
’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔‘‘
یعنی اللہ کے بارے میں ایسے جانکار حضرات جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی کماحقہ تعظیم کی۔ مزید ارشاد ہے:
﴿ أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴾ (الزمر: ۹)
’’بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادتیں ) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو(اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں ) بتاؤ علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں ؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔‘‘
لہٰذا جو شخص ایسا علم سیکھے جو اللہ اور آخرت سے قریب کردے اور اس علم سے ناواقف شخص برابر نہیں ہوسکتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ۔))[1]
’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
|