رسائل وکتب تصنیف کیں۔
اسلوب محاسبہ کی تطبیق کے لیے سلف صالحین کے نظریات مختلف ہیں، خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس اسلوب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’اپنے نفس کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اپنے آپ کو میزان میں رکھو، اس سے پہلے کہ تمہیں میزان میں رکھا جائے، یاد رکھو! آج(دنیا) کا محاسبہ کل یوم قیامت کے محاسبہ سے بہت ہی آسان ہے، قیامت کے عظیم دن کے لیے اپنے آپ کو(اعمال صالحہ سے) مزین کرو، اس دن تمہارے اعمال پیش کیے جائیں گے اور کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہے گا۔‘‘[1]
جب ہم عملی تطبیق پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے خلیفۂ راشدو عادل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نمونہ موجود ہے، کہ انہوں نے اپنے ہر حاکم، داعی اور مربی پر محاسبۂ نفس الارم کر رکھا تھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک دن نکلا، وہ ایک باغ میں داخل ہوئے اور میرے اور ان کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی، میں نے باہر سے انہیں اندرون باغ یہ کہتے ہوئے سنا: ’’عمر امیرالمؤمنین ہوگیا، نہیں نہیں، خطاب کے بیٹو! تم اللہ کا تقویٰ اپناؤ اور نہیں تو وہ عذاب دے دے گا۔‘‘[2]
میمون بن مہران محاسبہ کو تقویٰ مانتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ایک آدمی جس طرح اپنے شریک سے محاسبہ کرتا ہے، اس سے کہیں زیادہ سخت محاسبہ جب تک آدمی اپنے نفس سے نہیں کرے گا اس وقت تک وہ متقی نہیں ہوسکتا۔‘‘[3]
|