اسے اس کی قربت اور اس سے اتصال و تعلق کا احساس دلاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَحَبَّ الْعِبَادِ اِلَی اللّٰہِ اَنْفَعُہُمْ لِعَیَالِہِ۔))[1]
’’اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ اللہ کے عیال(محتاجوں ) کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہوتا ہے۔‘‘
لہٰذا ساری مخلوق اللہ کی عیال وحاجت مندہے، اور ان میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو انہیں نفع پہنچائے۔
مختلف اجناس بشریہ یا متعدد انسانوں کے ساتھ عملی اتباط اللہ کے دین میں بغیر کسی افراط وتفریط اور سستی و کوتاہی وسعت قلبی، وسیع ظرفی، خوش دلی، سہولت پسندی اور سہولت فرمائی کا مطالبہ کرتا ہے، اور ان سب کا ایک مسلمان کی شخصیت پر نمایاں و براہِ راست اثر ہوتا ہے، جس سے نفوس بشری مزید چمکدار و آبدار ہوتی ہیں اور تزکیہ وتربیت میں آگے بڑھ جاتی ہیں۔[2]
دوسروں کی خدمت سے ایک انسان کئی اخلاقی خوبیاں حاصل کرتا ہے جن میں صبر، قربانی، دوسرے کے لیے اپنے کو تیار رکھنا یا دوسروں کی مدد کرنا وغیرہ وہ اسلامی اخلاق حمیدہ وصفات ستودہ ہیں جن سے آراستہ نفوس سے روشنی کی کرنیں اور جمال کے پرتو پھوٹتے ہیں۔
ایک انسان جب امر بالمعروف اور عن نہی عن المنکرکرتا ہے تو اسے ان اصول و مبادیات کا اور یقین ہوجاتا ہے جسے وہ اپنائے ہوئے ہوتا ہے اور وہ اس پر سب سے پہلے کاربند ہوتا ہے اور اسے تھام لیتا ہے، لہٰذا یہ عبادتیں دوسروں سے پہلے اپنی اصلاح کے لیے ہوتی ہیں، اور ہر مسلمان کے لیے مناسب ہے کہ اس کی تمنا کرے تا کہ اپنے ذات کی تربیت
|