لگاتار پیدائش کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ چل پڑا کہ مردکی پشت کے پانی کا ایک ادنیٰ قطرہ بلکہ اس ایک قطرہ کے دسیوں ہزار ذرات میں سے صرف ایک ذرہ عورت کے رحم میں ٹھہر جائے، بلکہ جس کی حرکت اور لہروں سے محفوظ مقام میں جگہ بنا لے....پھر جب مرد کا مادہ منویہ عورت کے مادۂ منویہ سے مخلوط ہو کر نطفہ سے جمے ہوئے خون کے لوتھڑے میں تبدیل ہوجائے اور رحم کی دیوار سے لگ کر ایک باریک نقطہ کی شکل اختیار کرلے تو ابتداء ً وہ عورت کے خون سے غذا حاصل کرتا ہے۔ پھر وہی باریک نقطہ بڑا ہو کر گاڑھے مخلوط خون کی شکل اختیار کر کے لوتھڑے سے گوشت بنتا ہے اور اس کی نمو کایہ سلسلہ اسی خط پر اپنی منظم و مرتب حرکت کے ساتھ لگا تار چلتا رہتا ہے....یہاں تک کہ ہڈیوں کا مرحلہ آن ہوتا ہے، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھنے لگتا ہے....پھر وہ اتقا کے لیے مستعد انتہائی انوکھی مخلوق میں تبدیل ہوجاتا ہے۔‘‘[1]
انسان کی تخلیق مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ وہ اصلیت وحقیقت کے اعتبار سے مٹی ہے، اور مردوزن کے ملاپ سے نطفہ بنتا ہے۔ نطفہ سے جمے ہوئے خون کا لوتھڑا، پھر گوشت کاٹکڑا، پھر ہڈیاں بنتی ہیں۔ پھر ہڈیوں پرگوشت چڑھتا ہے اور جنین کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ سب کام علم وحکمت والے(اللہ) کے اندازے کے مطابق ہوتا ہے۔ پندرہ سو سال پہلے قرآن نے ان حقائق سے پردہ اٹھا کر ہمیں بحث وتفکیر کی مشقت سے بچا لیا، اور ایک مردمومن کا ایمان ویقین، ثبات قدمی اور دینی فخروناز اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب وہ جانتا ہے کہ تخلیق انسانی کے ہمارے ان معلوم شدہ حقائق کا انکشاف صدیوں بعد آج کے دور میں سائنس نے کیا ہے۔
ڈاکٹر بوکائی لکھتے ہیں :
|