عَنْ هَذَا غَافِلِينَ ﴾ (الاعراف: ۱۷۲)
’’اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے انہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔‘‘
ابن کثیر نے اس آیت کے تحت جامع ترمذی کی سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نقل کی ہے کہ ’’جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا، ان کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والی ذریت باریک باریک ذرات کی شکل میں جھڑ کر گر پڑی۔‘‘[1]
شیخ رفاعی لکھتے ہیں :
’’آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت کے نکالے جانے کے بارے میں اور انہیں اصحاب الیمین واصحاب الشمال(دائیں اور بائیں والے) میں تقسیم کیے جانے کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، بلکہ بعض احادیث میں یہ تذکرہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے رب ہونے کی گواہی بھی لی ہے۔‘‘[2]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے روز ایک جہنمی شخص سے کہاجائے گا: بتاؤ اگر تمہارے پاس روئے زمین کی ساری اشیاء ہوتیں تو کیا تم اسے فدیہ میں پیش کردیتے؟ کہے گا: ہاں، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: میں نے تو تم سے اس کے بالمقابل نہایت معمولی سی
|