بات کو چاہا تھا، میں نے تم سے آدم علیہ السلام کی پشت میں ہی عہد لیا تھا کہ میرے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا، مگر تم نے اسے نہ مان کر شرک کرلیا۔‘‘[1]
مسند احمد میں سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میدان عرفات کی وادی نعمان میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے پیمان لیا تھا۔ ان کی پشت سے تمام ذریت کو نکال کر ان کے سامنے ادنیٰ ذرات کی شکل میں چھینٹ دیا، پھر ان سے دوں بہ دوں گفتگو کرتے ہوئے کہا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے بیک زبان ہو کر کہا: کیوں نہیں ! ہم گواہی دیتے ہیں۔ تب پروردگار نے کہا: ہم بھی گواہ بنتے ہیں تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو محض اس سے بے خبر تھے۔ یا یوں کہو کہ پہلے پہلے تو شرک ہمارے بڑوں نے کیا تھا اور ہم ان کے بعد کی نسل میں ہوئے، تو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر توہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟‘‘[2]
جب معاملہ ایسا ہی ہے تو ساری مخلوق تابعداری کی مکلف ہے، اور بہ نفس نفیس ہر فرد کی ذات میں اسلام اورایک اللہ رب العالمین کی عبادت ودیعت کردی گئی ہے۔ آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کی تخلیق کا مقصد یہی ہے، تا کہ ان میں ہر فرد بشر اللہ کا عبادت گزار، اس کے احکام کا پاسدار اور اس منہیات سے پرہیز کرنے والا بن جائے۔ دس صدیوں تک آدم اور ان کی ذریت اس حال پر قائم رہی، سب کے سب نوح علیہ السلام کے زمانہ تک شریعت حقہ پر قائم ودائم رہے۔[3]
پھر جب اختلاف رونما ہوا اور لوگ راہ حق سے برگشتہ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل معبوث فرمائے جو لوگوں کی رہنمائی کرتے اور انہیں راہ حق پر لانے کی کوشش میں لگے
|