Maktaba Wahhabi

152 - 255
مگر بمشکل پڑھ پاتا ہے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔‘‘ ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((اِقْرَؤُ الْقُرآنَ فَاِنَّہٗ یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیْعًا لِاَصْحَابِہِ۔))[1] ’’قرآن پڑھو، کیونکہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی ہوگا۔‘‘ اورعبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ: اِقْرَأ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَاِنَّ مَنْزِلَتُکَ عِنْدَ آخِرَ آیَۃٍ تَقْرَؤہَا۔))[2] ’’قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتے جاؤ اور جنت میں چڑھتے جاؤ اور اس طرح ترتیل سے پڑھو جیسا کہ دنیا میں ترتیل سے پڑھتے تھے، تمہاری قرأت کی آخری آیت جہاں ختم ہوگی وہی تمہارا ٹھکانہ ہوگا۔‘‘ یہ خیر وخوبی اور افضلیت جو کتاب اللہ کے پڑھنے والے کو مل رہی ہے اور جو رفعت و بلندی اسے دنیا وآخرت میں حاصل ہو رہی ہے، یہ آدمی کا اپنی ذات کی تربیت اور تزکیہ کی توفیق ملنے کی وجہ سے ہے۔ جب کوئی شخص قرآن پڑھنا شروع کرے تو اس کی یہ حالت ہونی چاہیے کہ اس پر خشوع وخضوع طاری رہے، وہ اس میں تدبر اور غوروفکر کرے اور روئے، ان کیفیات کے ساتھ جب وہ قرآن کی تلاوت کرے گا تو اس سے اس کو انشراح صدر ہوگا، اس کا دل روشن ہوگا اور روح کو بلندی ملے گی۔ تلاوت قرآن سے درستگی وخیر کی توفیق اور اسے قبولیت کی سعادت پانے کے لیے قاری کو چاہیے کہ آداب تلاوت سے مزین رہے، اثنائے تلاوت اس کے خیالات پراگندہ نہ ہوں، بلکہ وہ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرے، معنی ومفہوم کو سمجھے، وعدہ ووعید میں تدبر اور
Flag Counter