ملے گی، کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا۔‘‘[1]
قرآن اس قانون کے اثبات کی مختلف شکلیں پیش کرتا ہے، چنانچہ نوح اور لوط علیہما السلام کی بیوی کا موقف ہمیں یاد دلاتا ہے جو ایمان کے معاملے میں اپنے نبی شوہروں کی موافقت نہیں کرسکیں اور نہ ان دونوں کی رسالت کی تصدیق کرسکیں۔ چنانچہ یہ ناطہ ان دونوں کے کسی کام نہ آسکا اور نہ کسی ممنوع کو ان سے روک سکا، یا عذاب جہنم کو ان سے ٹال سکا۔
اس کے برخلاف فرعون کی مومنہ بیوی کی تصویر بھی ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے، جو اپنے رب کی اطاعت کے ساتھ اس پر ایمان لائی اور اس کے شوہر کا کفر اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوا۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ (10) وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ (التحریم: ۱۰، ۱۱)
’’اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی، یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو(شائستہ اور) نیک بندوں کے گھر میں تھیں، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی، پس وہ دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا کہ(اے عورتو!) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ، اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جب کہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے
|