Maktaba Wahhabi

96 - 255
’’جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا مہربانی کرنے والاپائے گا، اور جو گناہ کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے اوراللہ بخوبی جاننے والا اور پوری حکمت والا ہے۔‘‘ پہلی آیت میں آدمی کے اپنے ذاتی معاملات میں کیے ہوئے کام کی شخصی و ذاتی ذمہ داری کا بیان ہے، اور دوسری آیت ثابت کرتی ہے کہ آدمی جب کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کا انفرادی جزا سے تعلق ہوتا ہے تودوسرا شخص اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿قُلْ لَا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ (سبا: ۲۵) ’’کہہ دیجیے!ہمارے کیے ہوئے گناہوں کی بابت تم سے کوئی سوال نہ کیا جائے گا، نہ تمہارے اعمال کی باز پرس ہم سے کی جائے گی۔‘‘ انسان جو بھی نیکی، بھلائی، ہدایت یا شرو فساد اور گمراہی کے کام کرتا ہے اس کی ذمہ داری بھی اس ضمن میں داخل ہے۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ (الاسراء: ۱۵) ’’جو راہ راست حاصل کرلے وہ خود اپنے ہی بھلے کے لیے راہ یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے کوئی بوجھ والا کسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادے گا۔‘‘ سید قطب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’گویا یہ انفرادی بوجھ جو ہر انسان کو اس نفس سے مربوط کرتا ہے۔ اگر وہ ہدایت یاب ہوتا ہے تو جزا کا مستحق ہے، اور اگر گمراہ ہوتا ہے تو سزا کا حقدار ہے۔ کوئی نفس دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور کوئی دوسرا دوسرے کے بوجھ کو ہلکا نہیں کرے گا، ہر ایک سے صرف اسی کے عمل کا سوال ہوگا، اور اسی کی جزا ہی اسے
Flag Counter