طرف اشارہ کردیں جو’’رفع الحرج فی الشریعۃ الاسلامیۃ‘‘ کے عنوان سے کلیۃ الشریعہ، جامعہ ام القری(مکہ مکرمہ) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے پیش کی گئی ہے۔
کتاب مذکورہ میں شیخ نے لائق معذرت ناواقفیت اور ناقابل معذرت جہالت کی بحث کرتے ہوئے مندرجہ ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے:
(الف).... اصول دین یعنی توحید وعقائد کے معاملات سے ناواقفیت کسی بھی حال میں لائق عذر نہیں ہوتی، جس طرح ان سے واقفیت کا غلط دعویٰ بھی کسی حالت میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔
(ب).... دین کے واجبی کاموں مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج سے ناواقفیت ہمہ وقت نامقبول ہے اور اسی ضمن میں بعض عبادتوں کے کچھ واجبات و ارکان و شرائط بھی داخل ہیں، کیونکہ ایک مکلف مسلمان کا علمی مرتبہ خواہ کتنابھی کمزور ہو اس سے طریقۂ شرعی کے مطابق ان کے اوقات میں ان کی ادائیگی مطلوب ہے، ایسے ہی مشہور قسم کے حرام کام جیسے قتل وخونریزی، شراب، سود اور زنا وغیرہ۔
(ج)....اگر ایک مسلمان دارالحرب میں پیدا ہوا ہو اور وہ کوئی ایسا اقدام کرجائے یا کسی ایسے کام سے باز رہے جس کا حکم اسے نہیں معلوم ہوا ہو تو اس کی ناواقفیت یا دعوائے ناواقفیت قابل معذرت ہے۔
(د).... ایک نو مسلم شخص قبول اسلام کے ابتدائی دور میں ناواقفیت کی بناپر قابل معذرت ہے۔
(ہ).... ناواقفیت ونادانستگی عوام کے حق میں اس وقت قابل قبول یا لائق معذرت ہے جب ایک شخص ایسے کا م میں پڑجائے جس کا علم صرف علماء ہی کو ہوا کرتا ہے۔‘‘[1]
لہٰذا ایک مسلمان شخص کے لیے مناسب ہے کہ ایسے پھسلاؤ اور لغزش کے مقام سے
|