Maktaba Wahhabi

92 - 255
دلچسپی دوسرے علم کی بہ نسبت زیادہ مفید ہے۔‘‘[1] شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے اس مقرر کردہ اصول کے مطابق کسی شخص کو حق نہیں کہ علم شرعی کے مطلب و حرص میں سستی برتے، بالخصوص اس جیسے زمانہ میں جبکہ لوگ علماء سے دور ہوچکے ہیں اور دنیا کی لذت ومسرت میں پڑچکے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح تربیت و تعلیم کے نصاب اور طریقۂ زندگی کے نت نئے پیش آمدہ مسائل کے سائے میں اپنی مطلوبہ خدمات یا کارکردگی ادا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ بعض تعلیمی ادارے جو خدمات انجام دے رہے ہیں، ہمیں اس کا انکار نہیں لیکن درست بات یہ ہے کہ وہ بھی کمی اور کوتاہی کے شکار ہیں، اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے اس نماز کے مسائل جسے ہر مسلمان روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ ادا کرتا ہے، ناخواندہ تو درکنار مدارس کے فارغین کے ذہن سے بھی اوجھل رہتے ہیں۔ تمہیں کتنے اونچی ڈگری والے حضرات بھی ملیں گے جنہیں غسل جنابت کا طریقہ نہیں معلوم، اور انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اگر کوئی اسلام کے علاوہ مذہب اختیار کرے تو دائمی جہنمی ہوگا۔ ہمسایہ اور رشتہ داروں کے حقوق اور خریدو فروخت کے معاملات جو ہر عاقبل وبالغ کے لیے ضروری ہیں ان سے ناواقفیت کے بارے میں بھی آپ یہی بات کہہ سکتے ہیں، ان میں ناواقفیت کی بنا پر کسی کو شرعاً معذور قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کوئی معترض کہہ سکتا ہے کہ ان مسائل سے نا واقفیت کی بنا پر آدمی کو معذور قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن جواباً ہم کہیں گے کہ ماضی وحال میں علماء نے اس مسئلہ پر خوب بحث ومباحثہ کیا ہے، جسے یہاں دہرانے کی گنجائش تو نہیں لیکن اسے اس کے مصادر مآخذ سے حاصل کیا جاسکتا ہے، لہٰذا مناسب ہوگا کہ ہم یہاں عالی جناب شیخ صالح بن عبداللہ بن حمید کی اس کتاب کی
Flag Counter