Maktaba Wahhabi

90 - 255
کی طرح پڑے رہنے والے، دن میں گدھے کی طرح کام کرنے والے، معاملات دنیا کے جانکار اور امور آخرت سے ناواقف شخص کو۔‘‘ عصر حاضر میں کتنے پیروجوان مرد و عورت پر یہ وصف خوب صادق آتا ہے، کتنے انجینئر حضرات اپنے کام میں خوب مہارت رکھتے ہیں، کتنے صنعت کار اپنی صنعت سے خوب واقف ہوتے ہیں، کتنے تاجر بازار میں خوب کماتے ہیں، کتنے اساتذہ فن تدریس اور اپنے خصوصی مضامین میں بڑے مخلص ہوتے ہیں، کتنے ٹیکنیشین اور ملازمت سے جڑے افراد گھنٹوں گھنٹوں اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں، لیکن تم دیکھتے ہو کہ دین کے احکام سیکھنے کے لیے ہفتے یا مہینے میں خود اپنے گھر میں آل اولاد کے ساتھ یا مسجد میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ یا کسی دوسرے طریقے سے انہیں ایک گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں۔ میرے خیال میں عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم تعلیم یافتہ حضرات بھی اس روگردانی میں مبتلا ہیں، جبکہ علماء نے ان نواقض اسلام میں (یعنی اسلام شکن کاموں ) جن سے آدمی اسلام سے خارج ہوجاتا ہے دین الٰہی کی تعلیم و عمل سے اعراض کو بھی شمار کیا ہے۔[1] جب واقعہ یہ ہے تو معاملہ انتہائی خطرناک ہے، لہٰذا ہر مسلمان شخص کے پاس کچھ نہ کچھ علم شرعی ہونا ضروری ہے۔ اور ہر عاقل بالغ شخص کو دین کے اساسی واصولی وبدیہی مسائل سیکھ لینا چاہیے خواہ وہ عقائد یا عبادات یا معاملات کے جنس کے ہوں، اور ان پر زندگی بھر عمل کرنا چاہیے خصوصاً ایسے مسائل جن کا تعلق خود اپنی ضرورت سے ہو۔ ایک تاجر شرعی طور پر تجارت کے انواع واقسام اور قاضی حکم وقضاء کے احکام سیکھتا ہے تو اسی طرح ایک سیاستدان، ایک مدرس، ایک طبیب اور ایک انجینئر وغیرہ کے لیے بھی آپ یہی بات کہہ سکتے ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ ایک عاقل بالغ شخص کے لیے کون سا
Flag Counter