Maktaba Wahhabi

75 - 255
یہ مال کسی کے لیے نفع بخش نہیں بجز اس کے کہ اس سے اللہ کی رضا جوئی کرے، اور اسے ایسے مصارف میں خرچ کرے جو اسے اس دن فائدہ پہنچائے، جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی، لیکن فائدہ والا وہی ہوگا جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کی نیکی کے کاموں میں خرچ کیے جاتے تعریف فرمائی ہے۔فرمایا: ((نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحْ لِلْمَرْئِ الصَّالِحِ۔))[2] ’’اچھے آدمی کے پاس اچھا مال کتنا بھلا ہے۔‘‘ ایک مالک شخص کی شخصیت شیطانی وسوسوں پر قابوں پانے اور اللہ نے جو مال اسے دیا ہے اسے اپنے نفس کے تزکیہ و تربیت میں استعمال کرنے میں پوشیدہ ہے، ذرا تم ان قرآنی آیات میں غور تو کرو جو اس کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ﴾ (البقرہ: ۱۷۷) ’’اور جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوالیوں کو دیا کرے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا﴾ (الکہف: ۴۶) ’’مال واولاد تو دنیا ہی کی زینت ہے اور(ہاں ) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں
Flag Counter