Maktaba Wahhabi

74 - 255
﴿ يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ﴾(الفاطر: ۱۵) ’’اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز، خوبیوں والا ہے۔‘‘ شیخ الخولی کہتے ہیں : ’’ایک انسان جب اپنے نفس میں اپنی ضرورت مندی کا احساس کرلیتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی فطرت اور طبیعت ہے جسے وہ اپناتا ہے اور اسے اپنا دستور و منہج بنالیتا ہے۔ اور جب اس کے نفس میں بے اختیاری کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے تو اسے سارے عطیات نعمت اور مشیت الٰہی لگنے لگتے ہیں، اور اسے اس بات سے روکتے ہیں کہ کسی پر اس کے ذریعہ فخر کرے، ضرورت مندی کا احساس اللہ کی طرف توجہ مرکوز کرنے پر لگاتاہے، تاکہ اس صفات کے معنی ومفہوم سے قبولیت میں مدد مل سکے۔‘‘[1] لہٰذا مال ایک ایسی شے مستعار ہے جسے واپس لوٹانا ہے، اور اگر وہ کسی کے پاس رہ جائے توکوئی ایسا شخص نہیں جو اس کے لیے رہ جائے، وہ تو فانی زندگی کی ایک ضرورت ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ﴾ (آل عمران: ۱۴) ’’مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لیے مزین کردی گئی ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی؛ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔‘‘
Flag Counter