تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى ﴾(طٓہٓ: ۷۴، ۷۶)
’’بات یہی ہے کہ جو بھی گنہگار بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہوگا اس کے لیے دوزخ ہے، یہاں نہ موت ہوگی اورا ن زندگی، اور جو بھی اس کے پاس ایماندار ہوکر حاضر ہوگا اور اس نے اعمال بھی نیک کیے ہوں گے اس کے لیے بلند وبالا درجے ہیں، ہمیشگی والی جنتیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جہاں وہ ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے، یہی انعام ہے ہر اس شخص کا جو پاک ہوا۔‘‘
یہ ہے انجام کار، ہمیشہ کی ہمیشگی اور لامتناہی زندگی، جس نے اپنا تن من پاک رکھا وہ نعمتوں والے گھر کی طرف، اور جس نے اسے آلودہ کیا وہ، نعوذ باللہ، جہنم کی طرف ہوگا، لہٰذا ہرشخص اسے اپنی منشا کے مطابق چن لے۔
ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا () فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا () قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا () وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا ﴾ (الشمس: ۷، ۱۰)
’’اور نفس کی اور اس ذات کی جس نے اسے ٹھیک بنایا! پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری ( کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی۔ یقیناً وہ کامیاب ہوگیا جس نے اسے پاک کر لیا۔ اور یقیناً وہ نامراد ہو گیا جس نے اسے مٹی میں دبا دیا۔‘‘
ہم یہاں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بندہ تین مرحلوں سے گزرتا ہے، دنیا کی زندگی، پھر قبر، پھر ہمیشگی اور دوام، ان تینوں مرحلوں کا فاصلہ اللہ کے سوا کسی کو نہیں معلوم، ان مرحلوں کے بیچ بہت سے پوشیدہ اسرار بھی ہیں جنہیں ہم صرف کتاب و سنت کے ذریعے سے ہی معلوم کرسکتے ہیں۔ سچا اور پکا مسلمان ان پر ایمان رکھتا ہے، ان کی تصدیق کرتا ہے، اگرچہ اس عقل اس کا تصورنہ کرسکے یا اس کی حقیقت نہ جان سکے۔
|