وَمِنْہُمْ مَنْ یَّکُونُ اِلَی حَقْوَیْہٖ، وَمِنْہُمْ مَنْ یُّلْجِمُہٗ الْعَرَقُ اِلْجَامًا۔ قَالَ: وَاَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم بِیَدِہٖ اِلَی فِیہِ )) [1]
’’قیامت والے دن سورج کو مخلوق کے(اتنا) قریب کردیا جائے گا حتیٰ کہ وہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر ہوگا،(حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے(تابعی) سلیم بن عامر فرماتے ہیں کہ قسم میں نہیں جانتا کہ میل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کیا تھی؟ کیا زمین کی ایک میل مسافت یا(سرمہ دانی کی) سلائی کی مقدار جس سے آنکھ میں سرمہ لگایا جاتا ہے؟(کیونکہ عربی میں اسے بھی میل کہا جاتا ہے) پس لوگ اپنے(اپنے ) اعمال کے مطابق پسینے میں ہوں گے، بعض ان میں سے وہ ہوں گے جو اپنے ٹخنوں تک، بعض اپنے گھٹنوں تک، بعض اپنے پہلوؤں (کمر) تک پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے؛ اور بعض ایسے ہوں گے کہ انہیں پسینے نے لگام ڈالی ہوگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کی طرف اشارہ فرمایا۔‘‘
یہ اور اس قسم کی ہولناکیاں انسان کا انتظار کر رہی ہیں، کوئی ان سے بچ نہیں سکتا، سبھی کو اللہ کی طرف جانا ہے، وہ فرمایا ہے:
﴿ يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ () كَلَّا لَا وَزَرَ () إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ () يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ﴾ (القیامہ: ۱۰، ۱۳)
’’اس دن انسان کہے گا کہ آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ نہیں نہیں کوئی پناہ گاہ نہیں، آج تو تیرے پروردگاور کی طرف ہی قرار گاہ ہے، آج انسان کو اس کے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے آگاہ کیا جائے گا۔‘‘
جب لوگ رب العالمین کے روبرو کھڑے ہوجائیں گے تو ہرنفس کو اپنے کیے ہوئے کا بدلہ ملے گا، اور ہر بندہ جو آگے بھیجا ہے اسے پائے گا۔
|