ترک کردی جائے، اسی طرح ہر مہینہ ایک یا تین دن کا روزہ رکھنا اللہ کے نزدیک ان روزوں سے بہتر ہے جنہیں ایک مہینہ میں کئی دن رکھا جائے اور پھر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ اسی طرح تمام عبادات اور اعمال حسنہ میں (بھی معمولی عمل پر دوام واستمرار بہتر ہے اس کثرت سے جس پر دوام نہ ہو) ہر انسان اپنی طاقت و قدرت کو اچھی طرح جانتا ہے اس لیے وہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے عمل پر مضبوطی سے قائم رہے اور اس میں کمی نہ کرے۔
حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے :
’’جب شیطان یہ دیکھتا ہے کہ تم اللہ کی اطاعت پر مداومت برت رہے ہو تو وہ تمہارے پیچھے پڑ جاتا ہے، پھر جب تم برابر اس کی اطاعت پر ڈٹے رہتے ہو تو وہ مایوس ہو کر چھوڑدیتا ہے، لیکن اگر وہ تمہیں کبھی ایسے اور کبھی ویسے کرتے دیکھتا ہے(یعنی تمہیں غیر مستقل مزاج دیکھتا ہے) تو وہ تمہارے بارے میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔‘‘[1]
یہ اللہ کا بہت بڑا فضل وکرم ہے کہ جب کوئی مسلم بندہ اللہ کی اطاعت کا عادی ہوجاتا ہے اور اس پر مدوامت برتتا رہتا ہے، پھر کوئی مانع آجاتا ہے جیسے مجبوری مرض اور فتنہ وغیرہ اور وہ اسے ادا نہیں کرپاتا تو بھی اس کا اجر منقطع اور موقوف نہیں ہوتا بلکہ برابر اس کا اجر اسے اس وقت تک ملتا رہتا ہے جب تک وہ مانع زائل نہ ہوجائے۔ اس کی دلیل وہ روایت ہے جسے ابو بردہ اپنے والد ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو موسیٰ سے بارہا سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِذَا مَرَضَ الْعَبْدُ أَوْ سَافَرَ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ مَا کَانَ یَعْمَلُ مُقِیْمًا صحِیْحًا۔))[2]
’’جب کوئی بندہ بحالت قیام کسی نیک عمل پر دوام برتتا رہتا ہے پھر وہ بیمار ہوجاتا
|