ہے یا اسے سفر درپیش ہوتا ہے اور اپنا عمل ادا نہیں کرپاتا ہے تو بھی اس کو اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا بحالت قیام ملتا تھا۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
((اِذَا اشْتَکَی الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ: اُکْتُبُوا لَہُ أَفْضَلُ مَا کَانَ یَعْمَلُ اِذَا کَانَ طَلْقًا حَتّٰی أَطْلَقَہٗ۔))[1]
’’جب کوئی بندہ بیمار ہوجاتا ہے(اور اپنا وظیفہ ادا نہیں کرپاتا) تو اللہ تعالیٰ کا تبین اعمال فرشتوں سے کہتا ہے کہ بحالت صحت اس کو جو اجر ملتا تھا اس سے افضل اجر اس کے لیے لکھتے رہو، یہاں تک کہ میں اسے شفا دے دوں۔‘‘
ہادیٔ بشریت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے افراد کو چھوٹے سے بڑے تک اور جوانی سے بڑھاپے تک اللہ کی عبادت پر مداومت کی ترغیب دینے کے لیے کہا ہے:
((اَلشَّیْبُ نُوْرُ الْمُؤْمِنُ، لَا یَشِیْبُ رَجُلٌ فِی الْاِسْلَامِ اِلَّا کَانَتْ لَہٗ بِکُلِّ شَیْبَۃً حَسَنَۃً، وَرَفَعَ بِہَا دَرَجَۃً۔))[2]
’’بڑھاپا مومن کا نور ہے، بحالت اسلام جو شخص بوڑھا ہوجاتا ہے اس کی ہر سفیدی کے بدلے میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے۔‘‘
حدیث شریف میں ہے کہ’’ وہ سات لوگ جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، جبکہ سوائے اس کے عرش کے سایہ کے اور کوئی دوسرا سایہ نہیں ہوگا، ان سات لوگوں میں ایک وہ نوجوان بھی ہوگا جو اللہ کی اطاعت میں جوان ہوا ہے، اس لیے ہر شخص کو اپنے رب کی راہ چلنے میں ہمہ وقت عارفین باللہ میں سے ہونا چاہیے اور ان لوگوں میں سے ہونا چاہیے جو ہر جگہ اللہ کی اطاعت کے حریص ہوتے ہیں، اسی طریقہ کو اپنا کر
|