دودھ پینے کی خواہش رکھتا جائے گا، اور اگر تم نے بچپن ہی میں اس کا دودھ چھڑا دیا تو وہ دودھ پینا چھوڑ دے گا۔
زغلول نجار کہتے ہیں :
’’اخلاق فاضلہ صرف وعظ ونصیحت یا صرف یادداشت یا صرف عقلی رضا مندی سے وجود میں نہیں آسکتے، بلکہ وہ ایسی عملی مشق کے محتاج ہوتے ہیں جسے انسان کر کے دکھاتا ہے، یہاں تک کہ وہ ان اخلاق فاضلہ کا عادی ہوجاتا ہے اور وہ اخلاق فاضلہ اس کی طبیعت اور اس کے وجود کا ایک حصہ بن جاتے ہیں، اس کا دل بغیر ان کے مطمئن نہیں ہوسکتا اور اس کا ضمیر ان کے بغیر راحت نہیں محسوس کرتا، پھر وہ آدمی نظام، امانت، ضبط نفس، برداشت دوسرے کے ساتھ تعاون، اپنے مخالفین کے ساتھ تسامح، عوامی معاملات میں قربانی کا ایسا عادی بنا دیتے ہیں، جو زندگی بھر انسان سے ایسی مشق وممارست چاہتے ہیں کہ جس سے یہ اوصاف حمیدہ اس کے اندر جڑ پکڑ لیں۔‘‘[1]
اس اسلوب کے راسخ ہونے کے لیے میں نے اسلامی تربیت کی تطبیق کے ہر شخص کی طاقت وقدرت کے مطابق ہونے کی وکالت کی ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے، اس وقت میرے پاس ایک عورت بیٹھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، یہ کون ہے؟ میں نے بتلایا کہ فلاں عورت ہے جو اپنی کثرت صلوٰۃ سے معروف ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سنو! تم اپنے مقدور برابر ہی عبادت کیا کرو، اللہ تعالیٰ کسی کو مشقت وپریشانی میں نہیں ڈالتا یہاں تک کہ وہ خود اپنے آپ کو پریشانی میں مبتلا کرلے، اللہ کے نزدیک پسندیدہ کام وہ ہے جس پر آدمی ہمیشگی برتے۔‘‘[2]
|