۲:.... دشمن کی چالوں کی کاٹ کرے گا اور ان کے موجودہ اور مستقبل کے پلان اور سازش کا انکشاف کرے گا۔
۳:.... اسباب کو مسببات سے جوڑے گا اور صحیح موقف اختیار کرے گا اور صحیح اور ٹھوس نتیجہ پر پہنچے گا۔
۴:.... جامع تربیت سے متصف ہوگا اور سیدھے راستہ پر ثابت قدم رہے گا۔
عزلت اور مخالطت( گوشہ نشینی اور اختلاط) کے جن فوائد کا تذکرہ کیا گیا ان کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے الگ الگ حالات اور اوقات ہیں اور یہ ہر شخص کے سماجی، علمی، عقلی اور دونوں میں سے کسی ایک کے ترجیحی حالات کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتے ہیں، لیکن عزلت اور مخالطت کی ہر ایک حالت میں میانہ روی ضروری ہے، جیسا کہ حافظ ابوسلیمان خطابی رحمہ اللہ اپنی وصیت میں کہتے ہیں :
’’اس باب میں مثالی راستہ یہ ہے کہ تمہارے اوپر لوگوں کا جو حق ہے اگرچہ وہ اس کا مطالبہ نہ کریں پھر بھی اس کی ادائیگی سے باز نہ آؤ، اور لوگوں کو کسی ایسے باطل میں مت الجھاؤ جو تمہارے لیے ضروری نہیں ہے، اگرچہ کچھ لوگ تمہیں اس کی جانب بلائیں، کیونکہ جو شخص لا یعنی و بے فائدہ چیزوں میں مشغول ہوا، اس سے بہت سی فائدہ مند چیزیں فوت ہوئیں اور جو باطل میں گھسا وہ حق سے پھسل گیا، لہٰذا بھلائی میں لوگوں کے ساتھ رہو اور برائی میں ان سے دور ہوجاؤ، اور کوشش یہ کرو کہ لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی غائب کی طرح رہو، اور علم رکھتے ہوتے ہوئے بھی جاہل کی طرح رہو۔‘‘[1]
لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے میں کبھی کبھی لغزش بھی ہوجایا کرتی ہے جن سے اجتناب ضرروی ہے، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس کی تفصیل بتلاتے ہوئے کہتے ہیں :
’’اخوان کے ساتھ اجتماع کی دوقسمیں ہیں :
|