’’اس آیت ﴿ قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ ﴾میں اللہ تعالیٰ انہیں تلاش حق کے اصول اور منہج کی پرخلوص دعوت پیش کررہا ہے۔
یہ دعوت خواہشات و مصلحت سے دور ہو کر، زمین کے شروفساد سے بچ کر، غلط اور بُرے افکارو نظریات اور دل میں کھٹکنے والے ان تمام وساوس وخیالات سے جو اسے اللہ تعالیٰ سے دور کردیں ان سے پرے ہو کر، اور پارٹی وسماج اور ماحول میں رائج ومشہور ایسی تمام اثر انداز لہروں سے متاثر ہوئے بغیر صرف اللہ تعالیٰ کے لیے تیار رہنے کی ہے۔
یہ دعوت رائج الوقت پر پیچ مسائل وقضایا سے الگ ہو کر، عقل اور دل کی حقیقت کو قبول کرنے سے مانع گنجلک عبارات سے جدا ہو کر سادگی کے ساتھ حقیقت حال پر عمل کرنے کی ہے۔
یہ دعوت ایسی فطری، صاف ستھری، پرسکون پکار ہے جو ہنگامہ، اختلاط، التباس، کج نظری اور حقیقت کے رخ پر نور پر پردہ ڈال دینے والی خیانت سے دور ہو، یہی وہ دعوت ہے جو بیک وقت حقیقت کی تلاش کا اصول ومنہج بھی ہے، ایک ایسا سادہ اور معمولی منہج جو منفی افکار وخیالات، باطل تاثرات اور سلیبات سے خالی ہے اور اللہ کی مراقبت اور تقویٰ پر منحصر ہے، اور یہی وہ منفرد شے ہے جو اگر حاصل ہوجائے تو منہج درست ہوجائے اور راستہ سیدھا ہوجائے۔
صرف اللہ کے لیے تیار رہنا یعنی جس میں کوئی غرض، مصلحت، ہویٰ وہوس اور حرص طمع نہ ہو، صرف سادگی اور اخلاص ہو۔ پھر تفکر وتدبر بلا خارجی موثر کے پایا جائے، جس سے اللہ کے لیے تیار رہنے والے کو واسطہ پڑتا ہے۔ ﴿ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ﴾ اللہ کے واسطے وہ دو یاایک ایک کھڑے ہونے کا مطلب یہ ہے اگر وہ دو ہوں تو ایک شخص دوسرے سے سوال و جواب کرسکے، بھیڑ اور جمہور کی عقل سے جو جذباتیت کی پیروکار ہوتی ہے اور سنجیدگی سے
|