Maktaba Wahhabi

219 - 255
فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دوران حوار غلط مفاہیم، مبہم امور، اور حیران کن سوالات کی توضیح ہوجاتی ہے جوبلا حوار کے ممکن نہیں ہے۔ قرآن کریم اور سنت مطہرہ نے حوار پر بھرپور توجہ مبذول کی ہے۔ اور کیوں نہ ہو جبکہ وہ’’ذاتی اطمینان کا ایسا بہترین ذریعہ ہے جو حوار کرنے والے کو دل سے حاصل ہو رہا ہے، اور اطمینان قلب کوئی مفروضہ نہیں بلکہ وہ تو ایمان کی ایسی اساس ہے جو انسان کے دل کی گہرائی سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔‘‘[1] اس اطمینان اور سکون قلب کے حصول کے لیے اخلاص نیت اور حق تک پہنچنے کے لیے یکسو ہونا اور اثناء حوار دوسروں سے یا اپنی ذات سے خواہشات، حرص وطمع اور رغبت نفسانی سے صرف نظر کرنا ضروری ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿ قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴾ (سبا: ۴۶) ’’کہہ دیجیے کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے(ضد چھوڑ کر) دودو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی، تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں، وہ تو تمہیں ایک بڑے(سخت) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے۔‘‘ یہ دعوت ہر اس شخص کے لیے ہے جو اپنے ساتھی یا اختلاف رائے رکھنے والے سے بذریعہ حوار حق وصواب تک پہنچنا چاہتا ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ دوران مباحثہ اور اس کے ماقبل ومابعد صرف اللہ کو سامنے رکھے۔ سید قطب رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں :
Flag Counter