اس سے کم علم اور جاہل اس کے سامنے تواضع سے پیش آتے ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’علم حاصل کرو، اور علم کے لیے سکینت، علم وبرد باری اور وقار سیکھو، جس استاد سے علم سیکھ رہے ہو اس کے سامنے تواضع سے پیش آؤ، اور جن کو تم سکھا رہے ہو وہ تمہارے سامنے تواضع سے پیش آئیں۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے امام شافعی رحمہ اللہ پر جنہوں نے صاف صاف کہہ دیا:
’’کوئی بھی شخص اس علم کو خودداری اور مال ودولت یا حکومت کے بل پر سیکھ کر کامیاب نہیں ہوسکتا، کامیاب وہی ہوسکتاہے جس نے اسے تنگ دستی اور علماء کی خدمت کے ذریعے سے سیکھا ہے۔‘‘[2]
تحصیل علم میں جس شخص کی ابتدا جان سوز نہیں ہوگی اس کا انجام شاندار نہیں ہوگا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب متعلم نے معلم کے اخلاق کو برداشت نہیں کیا اور تحصیل علم میں فروتنی نہیں کیا اور علم کی حیثیت کا لحاظ کیے بغیر اس علم کی معرفت کے لیے تواضع نہیں کیا جو اس کے معلم کے پاس ہے تو ایسا شخص اپنے مطلوب تزکیہ(نفس) تک نہیں پہنچ سکتا، اس لیے ہر متعلم کو چاہیے کہ اپنے معلم کے سامنے نرم اور ہموار زمین کے مانند ہوجائے کہ جب اس پر بارش برستی ہے تو اس کا ذرہ ذرہ پانی جذب کرلیتا ہے اور زمین اس کے لیے مکمل طور پر تیار رہتی ہے۔[3]
امام شافعی رحمہ اللہ صبر وتواضع پر ابھارتے ہوئے فرماتے ہیں :
اصبر علی مر الجفا من معلم
فان رسوب العلم فی نفراتہ
|