استاذ ایک نیک اور صالح شخص خضر علیہ السلام کے سامنے ایک متواضع شاگرد کی حیثیت سے پیش آتے ہیں۔[1]
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جو اپنے والد کو نصیحت کرتے ہیں کہ شاید وہ اپنی ضلالت وگمراہی سے باز آجائے، لیکن ان کا گمراہ اور متکبر باپ ان کی اتباع کرنے سے انکار کردیتا ہے۔[2]
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کی گفتگو نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم نے کہا:
﴿ يَاأَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا ﴾ (المریم: ۴۳)
’’میرے مہربان باپ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا۔‘‘
لیکن وفادار بیٹے کا جواب معاند باپ اس طرح دیتا ہے:
﴿ قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَاإِبْرَاهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا ﴾ (مریم: ۴۶)
’’کہا اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے، سن! اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کرختم کر ڈالوں گا، جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ۔‘‘
تواضع کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی تواضع اختیار کرلے اور دعوت حق کے کام میں ڈھل جائے تو وہ دارین کی کامیابی سمیٹ لے گا، اور جو شخص اپنی ذات کی تربیت اور تزکیہ چاہتا ہے وہ اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے عالم سے تواضع سے پیش آئے جس طرح
|