مالک بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ اس بندہ پر رحم فرمائے جو اپنے نفس سے کہے کہ تونے فلاں کام (گناہ) نہیں کیا ہے؟ کیا تجھ سے فلاں کام سرزد نہیں ہوا؟ پھر اس کی مذمت کرے اور اس غلط کام پر اسے لگام ڈالے اور اسے کتاب اللہ کا پابند بنائے، تبھی کتاب اللہ اس کی رہنمائی ہوگی۔‘‘[1]
حارث المحاسبی رحمہ اللہ اپنے نفس کا محاسبہ اور اس کی سرزنش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’اے نفس تیرا ستیا ناس ہو! دنیا تو آخرت کا ذریعہ ہے، دنیا میں رنج وغم اور مشاکل جھیلنے والے آخرت کے دائمی سرور کے وارث بنے، اے نفس! تیرا برا ہو! دنیا میں اپنے آقا کا فرمان نہ چھوڑ کہ تیری دنیا و آخرت کا خسارہ ہوجائے، اے نفس! تیری بربادی ہو! کہاں ہے تلاوت قرآن؟ کہاں ہیں احادیث کے معانی ومطالب؟ کہاں ہے اس ذات کا شکریہ جس کے احسان کے سوا اور کچھ بھی تجھے نہیں معلوم؟ تو تو جاہلین کے احوال، غافلین کے منازل اور فاسقین کے اعمال پر راضی ہوگیا، اے نفس! تیری تباہی ہو! کیا تجھ سے ہر قسم کی لذت ختم نہیں ہوگی؟ اور ہر خوشی وعیشی زائل نہیں ہوگی؟ دن اور گھڑیاں گزرتی رہیں اور اس میں غلطی اور گناہ ہوتے رہے، جن کا وبال تمہارے سر ہے، یہ ایک فیصلہ تھا جو ہوگیا، اب سوال باقی رہ گیا ہے۔ کیا تم اسی طرح اپنے شب وروز کا استقبال کرو گے جس میں کچھ امور تمہارے موافق ہیں اور کچھ برائی تمہیں پہنچنے والی ہے، سو جو کچھ ہوچکا ہے اس سے باز آجاؤ ورنہ اس کا انجام باقی ہے....‘‘ [2]
وہ امور جن کی وجہ سے ایک مسلمان اپنے نفس کے محاسبہ کے لیے تیار رہتا ہے ان میں سرفہرست اللہ تعالیٰ پر یہ کامل یقین رکھنا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ہر چھوٹے بڑے گناہ پر ان
|